uss paar
اُس پار
August 25, 2025

نادان بچہ

نادان بچہ

ہم سب کو بڑے ہوکر ایک نادان بچہ بن جانا چاہیے۔

ہم آدم کی چٹان پر کھڑے تھے۔ قریب قریب پانچ ہزار سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے خوب اچھی طرح احساس ہو چکا تھا جیسا کہ پنچابی میں کہتے ہیں “ہُن اوہ گل نئی رہ گئی”۔

ایک طرف ایک مقامی سیاحوں کا گائیڈ انگریزوں کے ایک گروہ کے سامنے کھڑا ہوکر اپنے عقب میں موجود ایک چٹان کے بارے میں بتا رہا تھا۔

“ہمارے عقیدے میں سری پدا ایک ایسا مقدس مقام ہے جہاں بدھا نے اپنی تیسری زِیارت کے دوران اپنا پاؤں رکھ کر نشان چھوڑا تھا۔ یہ نشان بودھی عقیدت کا مرکز ہے، اور دیوتا سمن کی رہنمائی اور چند بودھی بادشاہوں کی خدمت کی بدولت آج تک ہم اس کی زیارت کرنے کے قابل ہیں۔ زیارت کا آغاز اور اختتام مخصوص بودھی مقدس دنوں کے ساتھ منسلک ہے، جو صدیوں سے جاری ہے۔ اس مقام کی زیارت کرنے والا بہت زیادہ پُنَّ یعنی روحانی نیکی کماتا ہے۔ یہ نیکی اگلے جنم کو بہتر بناتی ہے۔ چونکہ یہ نشان گوتم بدھ کے قدم کا ہے، اس مقام کی زیارت کا مطلب براہِ راست بدھ کی موجودگی اور رحمت سے منسلک ہو جانا ہے۔ جو کوئی عقیدت سے اس پائے کو دیکھے اور چھوئے، اس کا دل پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی خلوصِ نیت سے دعا کرے تو دیوتا سمن اس کی حاجت پوری کرتا ہے، کیونکہ یہ پہاڑ ان کا مسکن مانا جاتا ہے۔ اس پہاڑ پر چڑھائی کرنے والے کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور کوئی حد سے زیادہ گناہ گار ہو تو کم از کم ہلکے ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ ایک پریاشچتھ کا عمل سمجھا جاتا ہے۔”

میں سمجھ گیا کہ میں صرف ہلکا ہی محسوس کرسکوں گا۔

ابھی یہ بیان جاری تھا کہ دوسری جانب میری نگاہ ہندؤں کےمجمع کی جانب گئی، میں ان کے قریب ہوا تاکہ ان کی گفتگو سن سکوں۔ شکر ہے گفتگو ہندی زبان میں تھی جو بالی وڈ کی مہربانی سے ہم پاکستانیوں کو مکمل سمجھ آتی ہے۔ اِس مجمع میں ایک پنڈت جی تھی جو باقی لوگوں سے درجہِ یقین پر فائز ہوکر خطاب کر رہے تھے۔

“تم جانتے ہو کہ پہاڑ کی چوٹی پر موجود نشان دراصل مہادیو شیو کے پاؤں کا نشان ہے۔ اسی لیے اس کو شیو پدا یعنی شیوا کا قدم کہا جاتا ہے۔ بھگوان شیو نے اسی پہاڑ پر تپسیا (گہری عبادت و مراقبہ) کی۔ اس لیے یہ مقام شیو کے بھگتوں کے لیے خاص تقدس رکھتا ہے۔(یہ کہتے ہوئے انھوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ وہ شیوا کے بھگت ہیں)۔ اس قدم کے نشان کو چھونا یا اس کے سامنے عبادت کرنا پاپ سے نجات دیتا ہے اور بھگت کی روح کو پاک کرتا ہے۔”

خطاب کے دوران تقریبا تمام ہندو ہاتھ جوڑے اِس روح پرور گفتگو میں محو تھے۔ ایک نے نظریں میری طرف اٹھائی تو میں مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔ کچھ وقت وہاں گزارنے کے بعد ہمیں سمجھ آ چکا تھا کہ ہم جیسے گناہگاروں کا یہاں کچھ نہیں ہونے والا۔

واپسی پر ایک ہزار سے زیادہ سیڑھیاں اترنے کے بعد میرے ایک ساتھی نے پوچھا

“آپ کے خیال میں ان دونوں میں سے کس کی کہانی زیادہ سچی ہے؟”

میں نے کہا “ان کی کہانی کے بارے میں سوچنے سے پہلے میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں تاکہ آپ خود سے سوچیں ۔ کل رات ہی یہاں آنے سے پہلے جب اس مقام کے بارے میں کچھ تحقیق کی تو بتایا جا رہا تھا کہ حضرت آدم کو جب جنت سے نکالا گیا تو انھوں نے پہلے تو سوال و جواب کئے کہ مجھے کیوں نکالا؟ وغیرہ وغیرہ، جب مسئلہ نہیں حل ہو سکا تو انھیں جنت سے ٹرانسفر کر دیا گیا۔ زمین پر وہ سب سے پہلے اسی مقام پر اترے تھے اوران کے قدم کا نشان یہاں بن گیا ایک نشانی کے طور پر۔ اسی وجہ سے یہ جگہ مقامِ آدم کہلاتی ہے۔ بعض اسلامی روایات خاص طور پر جنوبی ایشیا اور سری لنکا کے صوفیانہ قصوں میں ذکر ملتا ہے کہ آدمؑ سری لنکا میں اترے، اور بعد میں حضرت حوا کی تلاش میں ان سے جزیرہ نما عرب کے علاقے جدہ کے قریب جا کر ملے۔ اس نشان کی زیارت احترام سے کی جاتی ہے تاکہ اللہ کی قدرت کو یاد کیا جا سکے کہ اس نے حضرت آدمؑ کو زمین پر بھیجا اور انسانیت کی ابتدا یہاں سے ہوئی۔”

اتنے میں ہم دوہزار مزید سیڑھیاں اُتر چکے تھے۔ ٹانگیں سردی اور تھکان سے شل ہو رہی تھیں۔ میرے ساتھی حیرانی سے میری جانب دیکھتے جا رہے تھے۔ شاید وہ کسی ایک دو ٹوک جواب کی تلاش میں ہوں گے جو کہ ممکن نہ تھا۔ میں نے بات آگے بڑھائی

“میں نے نوجوانی میں ایک کہانی پڑھی تھی۔ ایک قدیم شہر میں ایک عظیم گھڑیال مینار کھڑا تھا۔ اس کی آواز پر لوگوں کی زندگیاں رواں تھیں۔ نماز کے اوقات، بازار کا کھلنا اور بند ہونا، کسانوں کی محنت اور مزدوروں کی کمائی، سب اس گھڑی کے سائے میں چلتے تھے۔ ایک روز ایک مالدار تاجر نے اپنی ہوس کے لیے گھڑی کا وقت آگے کروا دیا۔ مقصد یہ تھا کہ تجارتی نفع زیادہ حاصل ہو۔ لوگ آہستہ آہستہ اس جھوٹے وقت کے عادی ہو گئے۔ کسان جلدی بیچنے لگے، مزدوروں کو تاخیر کا طعنہ ملنے لگا، اور بازار کا نظام بدل گیا۔

ایک ننھے لڑکے نے آسمان کو دیکھ کر کہا

“یہ وقت سورج کے ساتھ نہیں ملتا۔ گھڑی غلط ہے”

لوگوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا

“نادان بچے! یہ گھڑی تو ہمیشہ سچ بولتی آئی ہے، تم اس سے زیادہ سمجھدار ہو؟”

وقت گزرتا گیا، نسلیں بدلتی گئیں، اور جھوٹ ان کا سچ بن گیا۔ وہ دن آیا کہ سچ بولنے والا دیوانہ کہلایا، اور جھوٹ کے پرستار دانشمند سمجھے جانے لگے۔

آپ لوگوں کو شاید عجیب لگے گا کہ جب سالوں گزر گئے، نئی نسلیں اسی جھوٹے وقت پر پروان چڑھتی رہیں۔ جھوٹ ہی اُن کا “سچ” بن گیا اور وہ لڑکے کی بات ایک کہانی بن گئی۔

اب والدین اپنے بچوں کو یہ کہانی سناتےہوئے کہتے تھے

“ایک بار ایک نادان بچہ سمجھتا تھا کہ گھڑی غلط ہے”

یہ کہتے ہوئے بزرگ اُس نادان بچے پر ہنسا کرتے تھے۔

مجھے آج تک وجہ نہیں معلوم مگر مجھے بچپن سے ہی وہ نادان بچہ بھا گیا اور میں اپنے دوستوں کو کہا کرتا تھا کہ میں بڑا ہو کر “نادان بچہ” بنوں گا۔

اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تحریر: حسنین ملک