جون ایلیا صاحب کے اعزاز میں
May 29, 2025خلیل جبران کے سات کبوتر
August 25, 2025
“پتر… اعتدال بھی کدی کدی (کبھی کبھی) حرام ہو جاتا ہے، اس سے بھی بچ کے رہنا ہوتا ہے بالکل جیسے مٹی کے رنگ کا سانپ کیونکہ وہ نظر ہی نہیں آتا اور ڈس لیتا ہے”
بابے نے یہ جملہ یوں پھینکا جیسے تاش کے پتوں میں اچانک کوئی ایسا پتہ نکل آئے جس نے پوری بازی کا رنگ بدل دیا ہو۔ پھر وہ اپنی داڑھی کے سفید دھاگوں میں گم ہو کر حقے کا کش لگانے لگے۔
میں سوچ میں ڈوبا تھا۔ کہیں یہ بزرگ بھی تو اُن لوگوں میں سے نہیں جو صوفیانہ سرور میں ڈوب کر کفر کی سرحدیں چھو لیتے ہیں؟ آخر اعتدال تو توازن کا نام ہے، میانہ روی کی علامت ہے، اور قرآن نے اسے بارہا فضیلت کے ساتھ یاد کیا ہے۔ مگر بابے کی آنکھوں میں ایک الگ ہی آگ جل رہی تھی۔ میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھا، اُس کے چہرے پر بھی وہی حیرت اور بےاعتمادی جھلک رہی تھی۔
بابا پھر بولے:
“تم لوگ سمجھو گے کہ میں پاگل ہوں یا کافر۔ مگر غور کرو ہر جگہ درمیانی راہ اختیار کرنا بھلائی نہیں ہوتا، اکثر یہ سب سے بڑا دھوکہ بن جاتا ہے۔
مکہ کی گلیاں یاد کرو ۔ وہاں دو ہی طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جو پیارے نبی پر دل و جان سے نثار تھے، جن کے نزدیک ایمان سب کچھ تھا اور جان و مال کچھ بھی نہیں۔ اور دوسرے وہ جو کھلے دشمن تھے، جن کی زبان اور تلوار دونوں سے دشمنی ٹپکتی تھی۔ وہاں کوئی درمیانہ راہی نہ تھا۔ کوئی ایسا نہ تھا جو آدھا دوست اور آدھا دشمن ہو۔
سوچو، اگر ہمارے محلے، ہمارے دفتر، ہمارے خاندان، ہمارے کاروبار میں بھی لوگ یوں صاف دکھائی دیتے تو زندگی کتنی آسان ہو جاتی۔ دھوکہ نہ ہوتا، نقصان نہ ہوتا۔ مگر یہ جو ہر جگہ دھوکہ ہے، ہر موڑ پر پیچیدگی ہے، یہ سب اعتدال پسندوں کی وجہ سے ہے۔ وہ لوگ جو کبھی کھل کر ساتھ نہیں دیتے اور نہ ہی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ ہماری پنجابی میں ایسے بندے کو میسنہ کہتے ہیں ۔
بابے کی آواز بھاری ہونے لگی:
“بیٹا، بدر کے دن جب کفار کھلے میدان میں آ گئے تھے تو اللہ نے مومنوں سے کہا: گھروں میں مت بیٹھو! اعتدال کے خواب مت دیکھو! یہ مت سوچو کہ ہم دونوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ فیصلہ کرو! یا حق کے ساتھ کھڑے ہو یا باطل کے ساتھ۔ بیچ کا راستہ یہاں حرام ہے۔”
وہ لمحہ بھر کو رکے، دھویں کا چھلا بنایا، اور پھر آگے بڑھے:
“کربلا ہو یا آج کا کشمیر و فلسطین، یہاں خاموشی بھی جرم ہے۔ یہاں میانہ روی بھی ظلم کا ساتھ ہے۔ یہاں اعتدال بزدلی ہے۔”
مجمع خاموش تھا۔ کسی نے ہمت کر کے سوال کیا:
“تو باباجی پھر کہاں اعتدال کرنا ہے؟”
بابا کی آنکھوں میں نرمی اتر آئی:
“پتر، کھانے پینے میں اعتدال کرو، نہ اتنا کھاؤ کہ پیٹ بوجھل ہو جائے اور نہ اتنا بھوکے رہو کہ جسم کمزور ہو جائے۔ رشتوں میں اعتدال کرو، نہ اتنے قریب ہو جاؤ کہ رشتوں کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو جائے اور نہ اتنے دور کہ لوگوں کا دکھ بھی سن نہ سکو۔ خرچ میں اعتدال کرو، نہ اتنے کنجوس ہو کہ ضرورت کو ترس جاؤ اور نہ اتنے فضول خرچ کہ محتاجی آ جائے۔ یہ ہے وہ اعتدال جو میرے پیارے نبی نے سکھایا۔”
بابے نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آواز بھرّا گئی:
“لیکن پتر! کبھی دیکھا کہ کسی نے آدھی توبہ کی ہو؟ یا اپنے ماں پیو کی خدمت آدھی کی ہو؟ ایمان کبھی آدھا نہیں ہوتا، سچائی کبھی آدھی نہیں ہوتی، محبت کبھی آدھی نہیں ہوتی ۔
کدی سنیا اے مجھے تم سے آدھی محبت ہے
وہ کیا کہتے ہو تم لوگ
I love you
اس کو ایسے کوئی کہتا ہوگا کہ
I half love you
محفل میں ایک مسکراہٹ اور گہرا سناٹا پھیل گیا۔ دھویں کے بادل میں بابے کا چہرہ جیسے تاریخ کی صداقتوں کا آئینہ بن گیا۔ انہوں نے دھیرے سے کہا:
“جہاں سچ اور جھوٹ آمنے سامنے کھڑے ہوں، وہاں بیچ کی راہ صرف منافقت ہے میرا پتر”
“پتر جب حق اور باطل ٹکرا جائیں تو جو لوگ گھروں میں دبک جاتے ہیں، جو درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہیں، تاریخ انہیں بزدل لکھتی ہے۔ قرآن پاک ان پر لعنت بھیجتا ہے۔ایسے لوگ جب پیارے نبی کا ساتھ دینے نہیں آئے ہوں گے تو اُس وقت پیارے نبی کو کتنا دکھ ہوا ہوگا۔”
بابا خاموش ہو گئے۔ محفل میں صرف دھویں کا بوجھ تھا اور دلوں پر ایک اور بوجھ، سوچ کا، آنسو کا، ایمان کا۔
“پاک نبی نے صلح کی تو بتا دیا کہ اعتدال کب اور کیسے کرنا ہوتا ہے اور جب اپنے لوگوں کے دفاع کیلئے جنگ کی تو پیغام دیا کہ اعتدال ہر وقت نہیں کرنا ہوتا”
تحریر: حسنین ملک
مدینہ منورہ
Aug-23-25