گرگٹ-کے-رنگ
گرگٹ کے رنگ
May 23, 2025

جون ایلیا صاحب کے اعزاز میں

تمھیں کیا فرق پڑتا ہے تم نے تو بس اوپر سے تماشا دیکھنا ہوتا ہے مگر اصل میں سب میرے سینے پر ہو رہا ہوتا ہے مجھے ہی جھیلنا پڑتا ہے وہ بھی اکیلے “

مگر میں تو ہر وقت تمھارے اوپر رہتا ہوں تاکہ تم کبھی خود کو اکیلا محسوس نہ کرو اور جب کسی مشکل میں ہو تمھیں سامنے ہی نظر آؤں

“تمھارے نظر آنے سے میری تکلیف کم نہیں ہو جاتی اور نہ اس وقت میں سب چھوڑ کر تمھاری طرف متوجہ ہو سکتی ہوں”

دیکھو یہ تو ہمیں تعلق کے آغاز سے ہی پتہ تھا کہ ہم دو الگ روحیں ہیں ہماری خلقت ہی الگ ہے اور ہم نے یہ سب جانتے ہوئے ایک دوجے کو اپنایا تھا تو اب انھیں باتوں کو جواز تو نہیں بنایا جاسکتا نا، کیا خیال ہے ؟

وہ خاموش ہوگئی کیونکہ وہ پہلے ہی پریشان تھی اور میں اس پر سایہ کرنے، اس سے محبت کرنے کے باوجود اس کو سینے سے نہیں لگا سکتا تھا ، ہم دونوں ایک ہی جسم سے جڑی دو آنکھوں کی طرح تھے جو ایک ہی جانب، ہر جانب تو دیکھ سکتی تھیں مگر ایک دوسرے کو نہیں ۔

“پھر اس تعلق کا مجھے کیا فائدہ جس میں تم کسی مشکل میں میرے ساتھ کھڑے ہوکر میری مدد نہیں کر سکتے”

دیکھو مدد کی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں ، جب کسی کو تمھارے ہاں کسی سڑک پر چلتے چوٹ لگ جاتی ہے تو اس وقت اس کے بہت قریبی لوگ اس کے پاس نہیں ہوتے، انجان لوگ اس کی مدد کر کے اس کو ہسپتال پہنچاتے ہیں ہسپتال میں انجان لوگ ہی اس کا علاج بھی کرتے ہیں مگر پھر آخر میں اس کے قریبی لوگ اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتے ہیں پریشان مت ہو،اکیلا مت سمجھو ،ہم ہیں نا! پھر وہ اسے گھر لے جا کر اس کا خود سے زیادہ خیال رکھتے ہیں ، جو خود بھی نہیں کھا سکتے وہ اس کے لیے لے کر آتے ہیں تاکہ وہ جلدی سے ٹھیک ہو، کئ بار تو یہ سلسلہ مہینوں تک چلتا ہے اور وہ اپنے آرام اور حیثیت کا خیال کیے بغیر اسے سنبھالتے ہیں ، دیکھا مدد کی کتنی قسمیں ہیں اور میں تمھارے لیے وہ آخری قسم ہوں جو تمھیں ٹھیک ہونے میں تمھارے ساتھ ہوتا ہوں بھلے اس پر ایک دن لگے ایک مہینہ یا ایک سال، میں تمھارے ساتھ ہوتا ہوں ۔

“مطلب میں جب پریشان ہوں تو انجان لوگوں کو سہارا بناؤں تم یہ چاہتے ہو؟”

یہاں میرے چاہنے کی بات نہیں ہو رہی ، یہاں صرف اصول اور قانون فطرت کی بات ہو رہی ہے اور قانون فطرت یہی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے بھی کسی سے محبت کر سکتے ہیں اس کے لیے کسی دوسرے کے مدار میں داخل ہونا ضروری نہیں ہے

“تو تم کبھی بھی میرے ساتھ نہیں ہو گے” اس نے شاید خود کلامی کی ۔

یاد کرو جب ہمارا تعلق قائم ہوا تھا تب بھی میں یہی تھا، ایسا ہی تھا اور یہیں پر تھا پھر بھی تمھارے دل کو بھایا۔ اگر میں آج یہاں سے نکل آؤں گا اپنی حد پار بھی کر لوں گا تو میں وہ رہوں گا ہی نہیں جو تمھیں پسند آیا تھا، میں جب میں ہی نہیں ہوں تو پھر تم مجھ سے محبت کیسے کرو گی، شاید میرا وہ روپ تمھارے لیے قابل برداشت ہی نہ ہو اس لیے ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم اپنے اپنے دائروں میں چلتے ہوئے ایک دوسرے کے دائروں کا احترام کریں اور ایک دوسرے سے محبت ۔ اور یہ بات کبھی نہ بھولنا کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے ،کسی ملن کے لالچ اور امکان کے بغیر ،کسی قرب کی تمازت سے دور، کسی فاصلے کے احترام کے ساتھ ۔

وہ مسکرائی اور گہری سوچ میں چلی گئی شاید میرے الفاظ نے اس کے حالات سے پیدا شدہ تناؤ کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا اور جیسے ہی ہمیں یہ محسوس ہو کہ کوئی ہمیں سمیٹے ہوئے ہے کوئی ہمارے پاس پوری دنیا کو چھوڑ کر موجود ہے تو ہم ٹھہر جاتے ہیں ، آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اس قرب کو محسوس کر کے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں یہ لمحہ شدید سردی میں ٹھنڈے جسم پر ایک گرم لحاف کا کام کرتا ہے اور کر رہا تھا۔

“تمھیں پتہ ہے مجھے زیادہ غصہ کس بات پر آتا ہے ؟”

بتاؤ

“جب میں سب ہنگامے، طوفان ،بیماریاں، فساد سب جھیل رہی ہوتی ہوں تب بھی لوگ میرے بجائے تمھارے طرف متوجہ رہتے ہیں اس وقت بھی وہ میری توجہ تمھاری طرف مبذول کر دیتے ہیں اور مجھے غصہ آتا ہے کہ تم پاس نہیں ہو اور یہ سب تمھیں یاد کرتے ہیں ،میں پاس ہوں مگر مجھے فقط تکلیف دیکھنی پڑتی ہے “

اب میں ہنس پڑا اس کے شکوے میں اپنایت تھی ایسا شکوہ بھی اظہار محبت کا ایک طریقہ ہوتا ہے

“تم ہنسو تمھیں مزہ آ رہا ہوگا، میں تب تڑپ رہی ہوتی ہوں اکیلے اور لوگ تمھاری طرف دیکھتے ہیں ، ہاتھ تمھاری جانب بڑھاتے ہیں ان کی نظریں اوپر کو اٹھتی ہیں “

اچھا تو تمھیں جیلسی ہو رہی ہے اب سمجھ آیا اصل مسئلہ

“ہوں، جیلس ہوتی میری جوتی، تب لوگ تمھاری طرف نظریں اور ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتے ہیں اور مجھے پتہ ہوتا تم کچھ نہیں کر سکتے ،تم بھی میرے جتنے ہی بے بس ہو”

اس نے طنز کیا، مجھے برا نہیں لگا

جان ! لوگ جو مرضی بولیں یا سمجھیں ، میں آسمان ہی رہوں گا اور تم زمین ہی رہو گی۔ ہمارا یہ فرق اور فاصلہ کبھی کم نہیں ہوگا یہ ہمارے اختیار میں ہی نہیں ہے مگر رابطہ، رویہ اور جذبہ یہ ہمارے اختیار میں ہے ۔ کبھی بھی اس وجہ کے لیے جو اختیار سے باہر ہو ، اختیار کے اندر کی چیز کو نہیں بدلنا چاہیے یہ بہت ہی خسارے کا سودا ہے۔ تمھارے ہزاروں جانب آسمان ہیں پھر بھی تم نے مجھے ہی چاہا اور میرے گرد کروڑوں زمینیں, سیارے اور ستارے ہیں مگر میرے لیے تم فقط ایک اور سب سے الگ ۔ تعلق اختیاری شے ہے اسے بے اختیاری چیزوں کے پیمانے پر پرکھنے والے ہاتھ ملتے اور روتے دیکھے ہیں ۔

سنو یاد رکھنا ! اصل محبت فاصلوں کو دل سے تسلیم کرنے میں ہے فاصلوں کو ختم کرنے کی ضد میں نہیں ۔

اتنی دیر میں زمین دوسری جانب گھوم چکی تھی، اس کا چہرہ مجھ سے اوجھل ہو کر کسے دوسرے آسمان کا سامنا کر رہا تھا. کل اسی وقت اسے پھر میرے سامنے آنا تھا،اتنے میں مریخ اور چاند میرے سامنے آچکے تھے اور ان کا ایک پرانا مسئلہ مجھے آج حل کرنا تھا۔ تب تک اس کے لیے ہزاروں آسمان تھے اور میرے لیے لاکھوں زمینیں ۔

مگر محبت لاکھوں کی موجودگی میں بھی ایک سے توجہ نہ ہٹانے کا نام ہے .

مجھے خود پر یقین ہے کہ کوئی اور زمین مجھے اپنی جانب متوجہ نہیں کر سکے گی کیونکہ میں ہونا ہی نہیں چاہتا اور مجھے یقین ہے میری زمین بہت سے آسمانوں سے گزرتی ہوئی بس میری جانب گامزن ہے اور اسی یقین کا نام محبت ہے ۔

زمین پر رہنے والے کسی شاعر کو ہماری خفیہ محبت کی خبر ہو چکی تھی اس نے لکھ دیا تھا:

ہمیں پھنسا کے یہاں فاصلوں کی الجھن میں

“زمیں” ضرور کہیں “آسماں” سے ملتی ہے

اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

تحریر: حسنین ملک