چھوٹی سی گڑیا اور قرآن
چھوٹی سی گڑیا اور قرآن
May 15, 2025

گرگٹ کے رنگ

گرگٹ-کے-رنگ

گرگٹ-کے-رنگ

کیا آپ جانتے ہیں گرگٹ

(Chameleon)

دوسرے گرگٹ سے محبت یا جذبات کے اظہار کے لئے رنگ بدلتا ہے؟

گرگٹ ان جانداروں میں سے ہے جو اپنا رنگ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اگرچہ بہت سے گلہری، مچھلیاں اور آکٹوپس بھی رنگ بدلتے ہیں مگر گرگٹ کو اس معاملے سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے اور اس عمل کی قدرتی طور پر بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ آئیے مل کر اس کے بدلتے رنگوں کو سمجھنے اور کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں:

گرگٹ کس لیے رنگ بدلتا ہے؟

موسمی اثرات سے بچاؤ:

اپنا جسمانی درجہ حرارت قابو میں رکھنے کے لیے بھی گرگٹ رنگ بدلتا ہے۔ مثلاً وہ دھوپ میں گہرا رنگ اختیار کرتا ہے تاکہ اپنے جسم کو زیادہ حرارت مہیا کر سکے اور ٹھنڈے ماحول میں اس کے برعکس ہلکا رنگ اختیار کرلیتا ہے۔ یوں وہ اس صلاحیت کو موسمی اثرات سے بچاؤ کے قدرتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

ماحول سے مطابقت:

گرگٹ اکثر اپنے ارد گرد کے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے لیے بھی رنگ بدلتا ہے یعنی خطرہ محسوس کرے تو اپنے ارد گرد جیسا رنگ اختیار کرتا ہے تاکہ دشمنوں کو پہچاننے میں مشکل ہو۔

جذبات کا اظہار:

گرگٹ اپنے جذبات جیسا کہ غصہ، خوف، یا جوش و محبت کے اظہار کے لیے بھی رنگ بدلتا ہے۔ خاص طور پرگرگٹ دوسرے مخالف جنس کے گرگٹ کو اپنے احساسات بتانے کے لئے رنگ بدلتا ہے جس کو ہم سمجھنے کے لئے گرگٹ کی باڈی لینگویج بھی کہہ سکتے ہیں۔

گرگٹ کا رنگ کیسے بدلتا ہے؟

گرگٹ اپنی جلد میں موجود خلیوں کا استعمال کرتے ہوئے مختلف رنگ اختیار کر لیتا ہے کیونکہ ان کے اندر طرح طرح کے رنگین ذرات پائے جاتے ہیں:

Chromatophores:

یہ جلد کی بیرونی سطح کے قریب ہوتے ہیں اور سرخ، پیلے، اور بھورے رنگ پیدا کرتے ہیں۔

Iridophores:

گرگٹ کے یہ خلیے جلد کی اندرونی سطح پر ہوتے ہیں اور روشنی کو منعکس کر کے نیلے اور سبز رنگ پیدا کرتے ہیں۔

Melanophores:

یہ سیاہ رنگدار خلیے ہوتے ہیں جو رنگ کو گہرا یا ہلکا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

جب گرگٹ کسی مخصوص ماحول یا حالت میں ہوتا ہے، تو اس کے دماغ سے ان محسوسات کے سگنل آتے ہیں جو اس کے خلیات کو متحرک کرتے ہیں، اور اس سے رنگ کی تبدیلی عمل میں آتی ہے۔ یہ ایک اختیاری فطری عمل ہے۔ اختیار کا پہلو یہ ہے کہ گرگٹ کس قسم کی گفتگو یا خیالات کا اظہار کرنا چاہ رہا ہے جس کے لئے وہ دوسرے گرگٹ کو اپنا رنگ تبدیل کر کے دکھاتا ہے اور فطری عمل خطرے کی صورت میں رد عمل کے طور پر سامنے آتا ہے۔

گرگٹ اپنی آنکھوں کو 360 کے زاویے پر گھما سکتا ہے اور دونوں آنکھوں کو ایک ہی وقت میں الگ الگ زاویوں پر بھی، یوں وہ اپنے رنگ بدلنے کی صلاحیت کے استعمال سے قبل اپنے ارد گرد کے ماحول، خطرات، حفاظتی انتظامات اورموجود وسائل کا مکمل جائزہ لے چکا ہوتا ہے۔ انسان کے پاس بھی ایسی ہی آنکھیں موجود ہیں جو ہر زاویہ دیکھ سکتی ہیں۔ مثال کے طور ہماری ظاہری دوآنکھیں ہمیں سامنے والے کے لباس سے اس کی حالتِ ذار دکھا رہی ہوتی ہیں یہ سگنل ہمارے دماغ کو بھی موصول ہو جاتے ہیں اب یہاں سامنے والی دوآنکھیں بند کر کے باطن کی 360 کے زاویے والی آنکھوں سے اگر دیکھا جائے تو سامنے والے انسان کے گھر کے باورچی خانے کے حالات تک بھی نظر چلی جاتی ہے جہاں کافی عرصے سے خالی پڑے ہوئے برتن ہمارے وسائل کی وسعت کے آگے احتجاج کر کر کے تھکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یقینا یہی وہ مقام ہے جہاں خدا کی کتاب ہمارے متعلق کہتی ہے کہ ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں۔

گرگٹ کا یہ سائنسی اور فطری عمل سمجھنے کے بعد حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ ہم انسانوں نے اپنے رنگ بدلنے کو گرگٹ کے رنگ بدلنے سے تشبیہ دے رکھی ہے۔ کوئی ظاہری طور پر دوست نظر آنے والا مشکل میں کام نہ آئے تو ہمارے ہاں وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہا ہوتا ہے، کوئی ترقی کرتے ہوئے اپنے پرانے ساتھیوں سے دوری اختیار کرے تو وہ رنگ بدل رہا ہوتا ہے یا پھر کوئی سیاستدان یا اعلی افسر اپنے بیان پر پورا نہ اتر پائے اور اس کے برعکس عمل کرے تو وہ بھی گرگٹ جیسا تصور کیا جاتا ہے ۔ یعنی غور کیا جائے تو ہم نے بے حسی، خود غرضی اور لالچ کے عوامل کے اظہار کے لئے گرگٹ کو استعارہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔

یہ بات انسانوں کی سمجھ تک تو ٹھیک تھی مگر گرگٹ بن کر سوچا جائے تو یہ بہت بڑا بہتان ہے، گرگٹ نہ تو دھوکہ دہی کے لیے رنگ بدلتا ہے نہ لالچ کے لئے نہ بے حسی دکھانے کے لئے پھر ہم کس اصول کی بناء پر انسانوں کی ان حرکات کو گرگٹ سے منصوب کر سکتے ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ گرگٹوں کی دنیا میں کوئی ان افعال کو سرزد کرے تو گرگٹ یہ کہنے میں ضرور حق بجانب ہوں گے کہ یہ تو انسانوں کی طرح اپنے رنگ دکھا رہا ہے۔

انسان فطری طور پر جواز تلاش کرنے میں گامزن رہنے کی خصوصیت کے بدولت اپنے ہر برے عمل کا جواز ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تاریخ ان داستانوں سے بھری پڑی ہے جہاں لاکھوں بے گناہ لوگوں کو مذہب کے نام پر قتل کرنے والا بھی مطمئن ہے کیونکہ اس کے پاس بھی ایک خوبصورت جواز موجود ہے۔

جواز کہتے ہی اسے ہیں جس میں ہم اپنے جرم کو کسی دوسرے کے گلے کی جہنم بنا کر خود جنت کی راہ پر گامزن ہو جائیں۔

پرانے افریقی ادب سے ایک جملہ مستعار لے کر پیش کر رہا ہوں

جب تک شیر لکھنا نہیں سیکھ لیتا تب تک ہر کہانی میں شکاری ہی شیر کا شکار کرتا رہے گا

ایسا لگتا ہے گرگٹ کو بھی انسانی زبانیں سیکھنی پڑیں گی ورنہ وہ ہر لمحہ فطرت کے قوانین کی نگہبانی کرنے والا بے ضرر جاندار ہم انسانی درندوں کے دھوکے، جھوٹ، لالچ اور خود غرضی کی داستانوں میں بدنام ہوتا رہےگا۔ مجھے تو لگتا ہے رنگ فقط گرگٹ ہی بدلتا ہے ہم تو جس رنگ میں پیدا ہوتے ہیں اسی رنگ میں مرجاتے ہیں ، بالکل نہیں بدلتے

ﷲ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور بدلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تحریر: حسنین ملک