خلیل جبران کے سات کبوتر
August 25, 2025نادان بچہ
September 10, 2025
“لڑکیوں کو یہ نہیں کرنا چاہیے” — وقت، تہذیب اور حوصلے کا سفر
صدیوں سے، مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں یہ جملہ بارہا دہرایا گیا ہے: “لڑکیوں کو یہ نہیں کرنا چاہیے”۔
کبھی یہ بات حفاظت کے نام پر کہی گئی، کبھی عصمت و پاکیزگی کے بہانے، اور اکثرمردانگی یا اقتدار کے تحفظ کے لیے۔ لیکن تاریخ کےاوراق گواہ ہیں کہ ہر دور میں ایسی عورتیں موجود رہیں جنہوں نے یہ فقرہ سنا، اس کی زنجیر توڑی، اور وہ کام کیا جس نے نہ صرف اپنے معاشرے بلکہ پوری انسانیت کی سمت بدل دی۔
قدیم تہذیبیں — رسم و رتبہ کی لکیر
ابتدائی تہذیبوں جیسے میسوپوٹیمیا، مصر، یونان اور چین میں عورت کی زندگی کا دائرہ زیادہ تر گھر، خاندان اور نسل بڑھانے تک محدود تھا۔ اس کی بنیادی وجوہات میں مذہبی قوانین جیسا کہ مردوں کے لیے مخصوص پجاری کا منصب اور خواتین کے لیے صرف چند مندر کی خدمات وغیرہ شامل ہیں۔ پھر عورت کے جسمانی کمزوری اور روحانی ناپاکی کے تصورات کو سند بناکر بھی استحصال کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اسی نسبت سی عورت کو مرد کی پابند اور تابع کرنے کی غرض سے اسےجائیداد اور نسب کے نظام میں قید کیا گیا ۔
یونان جیسی تاریخی متمدن تہذیب میں بھی خواتین کو عوامی عہدوں سے دور رکھا گیالیکن اسپاسیا آف ملیٹس نے پردے کے پیچھے رہ کر ایتھنز کی سیاست پر اثر ڈال کر ثابت کیا کہ عورت اگر چاہے تو کسی بھی ماحول میں اپنی شخصیت کا تاثر قائم کر سکتی ہے۔علم و فلسفہ کے میدان میں نظر دوڑائی جائے تو افلاطون کی اکیڈمی جیسے مضبوط ادارے فقط مردوں کے لیے تھے اور عورتوں کو برملا یہ کہا جاتا تھا کہ عورت کا فلسفہ و عقل سے کیا میل مگراسی ماحول میں ہائپاتیا آف اسکندریہ نے چوتھی صدی عیسوی میں ریاضی اور فلسفہ میں نام پیدا کر کے اپنی دھاک بٹھائی۔سپارٹا میں خواتین کو جنگ سے روکا گیامگر سیتھین قبائل میں عورتیں میدان جنگ میں شریک ہوئیں اور جنگی اساطیر کا حصہ بن گئیں۔
قرونِ وسطیٰ — اخلاقیات کا قفس
قرونِ وسطیٰ کا دور مذہبی ڈھانچوں سے گہرا متاثر تھا — عیسائی کلیسا، اسلامی فقہ، اور کنفیوشس کے خاندانی اصول — جنہوں نے صنفی حدود کو مضبوط کیا۔مرد تو چاہتے ہی تھے کہ عورت محدود اور ماتحت رہے مگر مذاہب یہاں بھی نہیں رکے بلکہ عورت کو ان زنجیروں کو چومنے پر لگانے کی خاطر اُن پابندیوں کو عفت و حیا کی حفاظت، مرد و عورت کے لیے علیحدہ مقامات، انبیاء و خدا کی صنف کی دلالت، نسب اور وراثت کے خدشات جیسوں خوبصورت لفافوں میں لپیٹ کر پیش کیا گیا اور عورت نے بھی اسے سر آنکھوں سے لگا لیا ۔
یورپ میں خواتین کو طب کی رسمی تعلیم سے محروم رکھا گیا، مگر ٹروٹولا آف سالیرنو کی طبی تحریریں نسلوں تک طبی رہنمائی کا ذریعہ بنیں۔اسلامی اور غیر اسلامی علاقہ جات میں اکیلی عورت کا سفر ممنوع سمجھا جاتا تھا، مگر چوتھی صدی کی ایگریا نے عیسائی مقدس مقامات کا سفرنامہ لکھ کر سفرِ ادب میں ایسی نئی بنیاد رکھی جس سلسلہ اور عروج کی مشعل آج کے دور میں بھی منیشا راجیش کے ہاتھوں میں نظر آتی ہے جنھوں نے” چاندنی ایکسپریس: دنیا کا سفر نائٹ ٹرین کے ذریعے “ لکھا جو مصنفہ کے اٹھارہ نائٹ ٹرین سفرناموں پر مشتمل ہے اور چار براعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں—اسکینڈینیویا کے آدھی رات کے سورج سے لے کر بھارت کے شور و غل والے ریل نظام تک، اور زلزلہ زدہ ترکی تک۔ مونیشا راجیش اپنے سفرنامے میں مزاح، ہمدردی اور انسانی تعلقات پر گہری سوچ کے ساتھ تاریخ اور ثقافت کو ایسے بیان کرتی ہیں کہ پڑھنے والا خود کو اسی ٹرین کا مسافر تصور کرنے لگ جاتا ہے۔
صنعتی دور اور جدید تاریخ — بوجھل دروازوں کو توڑنا
اٹھارہویں سے بیسویں صدی تک “لڑکیوں کو یہ نہیں کرنا چاہیے” کا اطلاق تعلیم، ووٹ کا حق، فیکٹری میں کام، ڈاکٹر بننے یا ہوائی جہاز اڑانے پر ہوتا تھا۔جھوٹی سائنس کا سہارا لیکر دعوی کیا گیا کہ “خواتین کا دماغ چھوٹا ہے”۔زیادہ تعلیم تولیدی صلاحیت کو نقصان پہنچائے گی اور افزائشِ نسل کے مسائل جنم لیں گے اور اخلاقی تعصب اس بات کا علمبردار رہا کہ خواتین جذباتی ہیں، قیادت نہیں کر سکتیں.
سوتر بائی پھولے نے تعلیم کی روشنی سے معاشروں کو بدل دیا توسائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ماری کیوری اور کیتھرین جانسن نے دنیا کو نئے افق دکھائے۔فضائی سفرکی بلندیوں پر ایمیلیا ایئر ہارٹ نے بحرِ اوقیانوس پار کر کے نازک مزاجی کا نظریہ توڑ دیا تو سیاست کی بساطِ شطرنج پر ایملین پنکرسٹ اور ان کی ساتھی خواتین نے ووٹ کا حق چھین کر دکھایا۔
آج کا دور — نرم لہجے میں وہی پرانی بات۔
آج “لڑکیوں کو یہ نہیں کرنا چاہیے” کے الفاظ کا لہجہ اور پہناوا بدل دیا گیا ہے مگر نیت وہی ہے
اکثر دھیمی اور مہذب زبان میں کہا جاتا ہے۔۔۔
“یہ خواتین کے لیے مناسب نہیں۔”
“یہ محفوظ نہیں ہے۔”
“اس سے گھر کے فرائض متاثر ہوں گے۔”
یہ جملے کیوں زندہ ہیں؟
اقتدار کا تحفظ: تاکہ فیصلہ سازی مردوں تک محدود رہے
ثقافتی جمود: صدیوں پرانی روایات پرسوال نہ اٹھانا
مذہبی تعبیرات: جو اکثر مردانہ زاویوں سے کی گئیں اور عورت تو “ناقص العقل” ہے اُسے ان چیزوں سے کیا کام؟
معاشی کنٹرول: خواتین کی مالی خودمختاری روکنا
انکار سے اقرار تک کا سفر
جب بھی عورت نے یہ جملہ نظر انداز کر کے آگے قدم بڑھایا، علم میں اضافہ ہوا ۔ طب، فلکیات ہو یا کمپیوٹر سائنس۔ معیشت مضبوط ہوئی نئی صنعتی محنت سامنے آئی ، کاروبارکے نئے رنگ و مواقع پیدا ہوئے۔ معاشرہ منصفانہ بنا کیونکہ حقِ رائے دہی، قانون کی اصلاح ، فن ، ادب اور فلسفہ کے تہذیبی حسن میں اضافہ ہوا۔
“لڑکیوں کو یہ نہیں کرنا چاہیے” ایک ایسا فقرہ ہے جو صدیوں سے خوف، قابو اور غلط اخلاقی پیمانوں میں لپٹا ہوا ہے۔ آئیں مل کر اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو پیغام دیں کہ وہ بھی پروردگار کی احسن تخلیق ہیں۔ انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ آج دنیا بھر میں چلنے والے کمپیوٹرز، موبائل فونز اور روبوٹس کے اندر چلنے والے پروگرام کا پہلا الگورتھم ایڈا لوولیس نے 1840 میں لکھا جو برطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں، اس نے پہلا الگورتھم بنایا جو کسی مشین کے لیے تحریر کیا گیا اور جو بعد میں کمپیوٹر پروگرامنگ کی بنیاد بنا۔ آج کی جدید کمپیوٹنگ — ایپس سے لے کر مصنوعی ذہانت تک — اسی سوچ اور تصور پر کھڑی ہے جسے کبھی ایک “چھوٹے دماغ” والی ایڈا لوولیس نے تراشا اور تمام بڑے دماغوں والے اس کو ماننے اور استعمال کرنے کے تابع ہیں۔ گاڑی کے شیشے سے بارش اور برف صاف کرنے کا آلہ جسے ونڈ شیلڈ وائپرکہا جاتا ہے اس کو بنانے والی بھی ایک امریکی خاتون تھیں جن کا نام مریم اینڈرسن تھا۔ آج دنیا بھر کی کروڑوں گاڑیاں اُس ایک خاتون کی بدولت ہر طرح کے موسم میں حفاظت سے چلتی نظر آتی ہیں۔ دنیا کا پہلا شمسی توانائی سے گرم ہونے والا گھر ہنگری کی ماریہ ٹیلیکس کا پیدا کردہ تصور اور ایجاد ہے ۔ بلٹ پروف جیکٹس، ہیلمٹس اور خلائی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والا بنیادی مواد کیولر
(Kevlar)
بھی اسٹیفنی کُوالیک کے “ناقص العقل” دماغ کی ایجاد ہے جن کی وجہ سے آج تک مکمل عقل رکھنے والی لاکھوں جانیں بچ سکیں۔
ہر دور میں، کہیں نہ کہیں،کسی ایک عورت نے یہ فقرہ سنا، اس کا وزن پرکھا، اور لکیر کے اُس پار قدم رکھ دیا۔
دنیا جب بھی بہتر ہوئی ، ہر بار، اُس پار قدم رکھنے سے ہی بہتر ہوئی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
تحریر: حسنین ملک