mamnu aitdaal
ممنوع اعتدال
August 23, 2025
uss paar
اُس پار
August 25, 2025

خلیل جبران کے سات کبوتر

خلیل جبران کے سات کبوتر

قرآن کے مطالعاتی سفر کے دوران ہمارا پڑاو اس ایک آیت پر لازم ہے، یہاں قرآن فرماتا ہے

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (الانعام: 116)
“اور اگر تم زمین میں زیادہ تر لوگوں کی بات مانو گے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کر دیں گے۔ وہ تو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض اندازے لگاتے ہیں۔”

کچھ لفظ دماغ کے تاروں کو چھیڑ گئے، پہلا لفظ اکثر یعنی کثیر ترین افراد یہی کرتے ہیں۔ دوسرا لفظ یضلوک مطلب وہ راستہ بھٹکا دیتے ہیں۔ تیسرا لفظ ظن بمعنی انھیں گمان ہے کہ وہ جو بتاتے اور کرتے ہیں وہ یقینی نہیں ہے، گمان یقین کی ضد ہے۔ آخری لفظ جو ہماری راہ دیکھتا ہے وہ ہے یخرصون جو خرص کے مادہ سے ہے جس کا مطلب ہوتا ہے قیاس آرائی کرنا۔ اکثر قیاس آرائیاں گمان کی بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں۔ آیت ہماری عقل کو دعوتِ غوروفکر دیتی ہے اکثریت گمانوں کی بنیاد پر جو قیاس آرائیاں بیان کرتے ہیں وہ انسانوں کے لئے گمراہی کا باعث بنتے ہیں اور انھیں قوانینِ الہی سے دور کر دیتے ہیں۔

خلیل جبران لکھتے ہیں کہ تقریباً سات صدیوں پہلے، سات سفید کبوتروں نے ایک گہری وادی سے پرواز کی۔ اُن کے پر برف کی مانند چمکتے تھے اور اُن کی سمت ایک برف پوش چوٹی کی طرف تھی وہ چوٹی جو آسمان کو چھوتی ہے اور انسان کو اپنی طرف بلاتی ہے۔

اس متحیر کن منظر کو دیکھنے والوں میں سے ایک نے یکایک کہا

“دیکھو دیکھو، ساتویں کبوتر کے پرکے اوپر ایک سیاہ دھبہ ہے۔”

یہ جملہ وادی کے لوگوں کی زبان پر بیٹھ گیا۔ جن لوگوں نے یہ منظر آنکھوں سے نہ دیکھا تھا ان تک بھی پہنچا۔ ایک شخص نے دوسرے کو، دوسرے سے سینکڑوں، ہزاروں پھر لاکھوں تک۔ مزید آگے چلا تو نسلوں تک یہ داستاں بیان ہوئی یہاں تک کہ رفتہ رفتہ کہانی بدل گئی۔ صدیوں کے سفر کے بعد اب لوگ کہتے ہیں کہ سات سیاہ کبوتروں نے چوٹی کی راہ لی تھی۔

حقیقت تو یہ تھی کہ سب کبوتر سفید تھے۔ مگر ایک فرد کی نظر، اُس کا شائبہ، اُس کی گمان آلود زبان، آنے والی نسلوں کے حافظے پر غالب آگئی۔ یہ ایک دھبے کی کہانی نہیں تھی، بلکہ اُس نظر کی کہانی تھی جو حقیقت کو اپنے رنگ میں ڈھال دیتی ہے۔

یہی ہے وہ راز جس کی طرف جبران اشارہ کرتے ہیں، جب بار بار ایک بات کہی جائے، تو وہ سچائی پر غالب آ جاتی ہے۔ سفید، سیاہ ٹھہرتا ہے۔ روشنی، اندھیرا قرار پاتی ہے۔ اور اصل اپنی شفافیت کھو دیتی ہے۔ بالکل جیسا قرآن نے کہا

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ (البقرۃ ۴۲)
اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ

کسی ایک شخص نے اپنی بات کو نمایاں کرنے کے لئے یا واقعہ میں رنگ بھرنے کی غرض سے یا انفرادیت کے اظہار کے لئے جو ایک دھبہ کسی کبوتر پر لگایا تھا اس نے صرف چھوٹا سا باطل اتنے بڑے واضح کے ساتھ ملایا تھا، اس ایک دھبے نے نسلوں کی عقلوں پر دھبے لگا دیا اور وہ غلط کو صحیح سمجھ کر بیان کرنے کے گمان میں رہے۔

یہ محض کبوتروں کا قصہ نہیں۔ یہ ہماری روح کا قصہ ہے، سچائی کا قصہ ہے۔ کبوتروں میں ہم خدائی پیغام رسانوں کی جھلک دیکھ سکتے ہیں، الہامات یا انبیاء کی صدائیں محسوس کر سکتے ہیں۔ برف پوش چوٹی اُس مقام کی علامت ہے جہاں انسانی شعور، سچائی اور قدسیت براجمان ہیں۔ اور وادی؟ وہ ہم ہیں یعنی حضرتِ انسان، جو دیکھتا ہے مگر اکثر غلط معنی پہناتا ہے۔ قرآن بار بار ہماری طرف اشارہ کر رہا تھا

فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ(الحج: 46)
“درحقیقت اندھی آنکھیں نہیں ہوتیں بلکہ اندھے وہ دل ہیں جو سینوں میں ہیں۔”

ایک دھبے نے پوری تصویر کو بدل دیا ہے۔ اور یوں ایک ادراک، ایک نسلوں کی یادداشت کو اپنے تابع کر لیتا ہے۔ حقیقت ہمیشہ سفید کبوتروں کی طرح روشن رہتی ہے، مگر ہماری آنکھوں کا دھندلا پن ہمارے دل کو سیاہ کرتا ہے اور پھر سب سیاہ ہی نظر آتا ہے۔ گمان کا ایک دھبہ ہمیں یقنین دلاتا ہے کہ یہ سیاہ ہی سفید ہے، ایسا دھبہ نسلوں کی یادداشت پر چھا جائے تو سچائی کا چہرہ بدل جاتا ہے۔یہ کہانی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ حقیقت برف پر بیٹھے سفید کبوتروں کی مانند شفاف اور روشن ہے۔ مگر جب دل پر گمان کا سایہ پڑ جائے تو روشنی بھی اندھیری لگنے لگتی ہے۔

ایک دھبہ اگرچہ چھوٹا ہو، مگر نسلوں کی ذہانت کو مسخ کرنے کے لئے کافی ہے۔ چوٹی کی طرف پرواز کرتے کبوتر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سچائی ہمیشہ بلندی کی طرف اٹھتی ہے، چاہے زمینی آنکھیں اُس پر کیسا ہی رنگ کیوں نہ چڑھا دیں۔ اصل سوال کبوتروں کا نہیں، ہمارے دلوں کا ہےکہ ہم حقیقت کو اُس کے نور میں پہچانتے ہیں یا اپنی نظر کے دھندلے شیشے سے دیکھ کر اندھیرے میں گم کر دیتے ہیں۔

کہیں یہ دھندلے شیشے ہمیں بغیر احساس دلائے سات کالے کبوتروں پر ایمان لانے کو مجبور تو نہیں کررہے؟ کہیں ہمیں یہ گمان تو نہیں ہو گیا کہ ہزار سال سے بیان ہوتے آئے کبوتر سفید ہو ہی نہیں سکتے؟ کہیں ہم بھی نسل در نسل قیاس آرائیاں تو نہیں کرتے آرہے کہ کبوتر صرف سیاہ ہی ہوتے ہیں؟ کہیں وہ دھبہ ہماری آنکھوں کے راستے ہمارے دل پر تو نہیں لگ گیا؟

ﷲ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تحریر: حسنین ملک

مکہ مکرمہ

Aug-25-25